Part 1

ایک لمحے کو سوچیں والدین بچوں پر ہاتھ کیوں اٹھاتے ہیں؟

الفاظ کی کمی کی وجہ سے

تعلق نہ ہونے کی وجہ سے

بے بس ہونے کی وجہ سے

طاقت کا بےجا استعمال کرنے کی وجہ سے

emotional regulation کی وجہ سے

اپنی بات ٹھیک سے سمجھا نہ سکنے کی وجہ سے

مار کو تربیت کا اہم رکن سمجھنے کی وجہ سے

زیادہ تر انہی وجوہات کی بنا پر بچے بھی ایک دوسرے سے الجھ رہے ہوتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے کہ یہ سب ہمیں سمجھ بھی آ گیا کہ بچہ اس طرح کر رہا ہے تو ہم کیا کریں؟

ہماری نظر اس سے ہٹ کر کہ بچہ کیا کر رہا ہے اس پر ہونی چاہئے کہ ہم خود بھی ایک skill سیکھیں اور بچے کو بھی سکھائیں۔ اور وہ سکل ہے؛

ShapeShapeME TO WE

بچے کو مارنے سے پہلے دیکھیں آپ کس عمر میں اٹک کر بچے کو مار رہے ہیں؟

کیا آپ کو بولنا نہیں آتا تو اپنے آپ کو ہٹائیں ۔ اگر اس سے آگے ہیں تو سیکھیں بچے کو ساتھ ملا کر کس طرح سے اس کا پوائنٹ سمجھنا ہے ۔

یہ سکل سکھاتے ہوئے بچے کی عمر کا خاص لحاظ رکھا جائے گا۔ ہر عمر کے بچے سے مختلف طرح سے پیش آیا جائے گا۔ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ بچہ اپنی عمر کی بات نہیں سیکھ رہا ہے تو آپ پچھلی عمر کے سلاٹ میں سے جو پوائنٹس ہیں ان پر کام کریں گے۔

0۔3 سال کی عمر

کسی بھی لڑائی پر بچے کا دھیان ہٹایا جائے گا۔ہاتھ اٹھنے ہر اس کا ہاتھ پیار سے پکڑ کر ہلکا ہلکا SHARING کا کانسپٹ دیا جائے گا مگر ایک 3 سال کے بچے سے یہ توقع رکھنا وہ اپنا سب کچھ دے دے غلط ہو گا ۔جس طرح آپ اپنا زیور ہر ایک کو شئیر نہیں کروا سکتے بچے کے لیے اس کی چیزیں اسی زیور جتنی اہمیت رکھتی ہیں۔

سال کی عمر6۔3

اس عمر کا بچہ شئیرنگ، اپنی باری لینا، معافی مانگ لینا اور معاف کر دینے کے کانسپٹ کو سمجھنا شروع کر دیتا ہے یہ سب کر کے دکھائیں۔ لیکچر نہ دیں۔ آپ سے غلطی ہو گئی ہے تو اس سے معافی مانگ لیں۔ ہم خود تو sorry بولتے نہیں اور بچے کے سر ہر ڈنڈا ہوتا ہے جاؤ معافی مانگ کر آؤ۔ کسی دوسرے کی، لڑائی کے دوران بھی عزت کیسے کی جا سکتی یے یہ بات بھی اس سے کی جا سکتی ہے۔

6 ۔9 سال کی عمر

اب آپ بچے کو دوسرے کا۔

point of view سمجھنے کی طرف لا سکتے ہیں۔ بچے سے مختلف

facial expressionsپر بات کریں کہ ان کو دیکھتے ہوئے ایک فاصلہ رکھیں۔ کوئی غصے میں ہے تو آپ پیچھے ہو جائیں آپ غصے میں ہیں تو کیا کیا کر سکتے ہیں۔جب آپ سے غلطی ہو گئ ہے تو اس کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟ کوئی خط، کوئی کارڈ وغیرہ اور اس کے ساتھ ہی یہ سکھائیں جہاں آپ کی غلطی نہیں، بظاہر نظر آ رہی ہے وہاں خاموشی سے فاصلہ اختیار کیا جائے۔

12۔9 سال کی عمر

اب mindsight سکھائیں

Mind sight = seeing things through your mind

(how are you feeling)

+ seeing things what is happening in others mind.

صرف یہ نہ ہو کہ میں سوچ رہا ہوں تو ویسا ہو جائے دوسرا انسان بھی کچھ سوچ رہا ہو گا۔ وہ اپنی جگہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔

اور یہ بھی سکھائیں لڑائیوں سے دور نہیں بھاگا جاتا ہے ان کو حل کیا جاتا ہے اور اس سے رشتے میں خوبصورتی آتی ہے۔

Part 2

ایموشنل انٹیلی جنس

ایموشنل انٹیلی جنس سیکھنے والی چیز ہے۔

یہ خود بھی سیکھیں اور بچوں کو بھی سکھائیں۔ اب آتے ہیں کیسےسیکھیں یا سکھائیں؟ ہم تو ناک تک بھرے بیٹھے ہوتے ہیں ۔اتنے کام ہیں اتنی الجھنیں ہیں۔ اس سب میں ایک نیا کام کیسے کریں؟

بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو مینج کیے بغیر کیا ہماری زندگی بہت اچھی چل رہی ہے؟ کیا ہم نے الجھنا چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے بچوں نے لڑنا چھوڑ دیا ہے؟ کیا سب کو خوش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ کیا بچوں کو ہم سمجھ پائے ہیں؟

جب ویسے بھی زندگی میں اودھم مچا ہی ہوا ہے تو کچھ سیکھ کر دیکھ لیں شاید اودھم سے سکون کا سفر شروع ہونے لگ جائے؟

دو بہن بھائی اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ؛

وہ میری پسند کا کھیل نہیں کھیل رہا ہے اپنی مرضی کر رہا ہے۔

اور ایموشنل انٹیلی جنس یہ ہے کہ آپ دونوں بچوں کو علیحدہ علیحدہ ان معاملات کو ڈیل کرنا سکھائیں گے۔ ایک کو کہیں گے کہ مجھے سمجھ آ رہی ہے کہ آپ کا بہت دل ہے کھیلنے کا لیکن ہر وقت دوسرا بہن بھائی آپ کی پسند کو مدنظر نہیں رکھ سکتا ہے۔

دوسرے کو آپ بتائیں گے کہ ابھی آپ اپنا وقت لینا چاہ رہے ہو ضرور لو پھر اس کے بعد اپنے بھائی یا بہن کے ساتھ مل کر بھی کھیل لینا ۔

دو بہن بھائی ایک دوسرے کو چڑا رہے ہیں؛

چڑانے والے سے آپ کہیں گے کہ غور کرو آپ کا کس وقت چڑانے کا دل کرتا یے؟ جب آپ بور ہو رہے ہوتے ہو؟ بہت زیادہ خوش ہوتے ہو یا کچھ اور؟

اور جس کو چڑایا جا رہا ہے اسے کہیں گے کہ آپ اگنور کرو وہ الٹی حرکتیں کر کے بتا رہا ہے کہ اس کے اندر ایسا سب ہے آپ وہ نہیں ہو جو الٹا سیدھا وہ بول رہا ہے۔

دو بہن بھائی آپس میں اس بات پر لڑ رہے ہیں آپ دوسرے سے زیادہ پیار کرتی ہیں ۔یا دوسرے کو کم کام کہتی ہیں۔

اس کا مطلب ہے شکایت کرنے والے بچے کو واقعی میں آپ محبت اس طرح سے نہیں دے رہے اور اگر دے رہے ہیں تو اس کا اظہار آپ نہیں کر رہے ۔ یا ہر بچہ مختلف انداز سے محبت وصول کرنا چاہتا ہے اس کو اس انداز سے محبت دیں ۔

کام کے اعتبار سے اس کو ہلکا پھلکا بتائیں کہ دیکھو یہ کام میں نے دوسرے کو دیا ہے ۔کچھ بچوں کو نظر صرف وہ آتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں ان کو روک کر دکھانا پڑتا ہے کہ یہ دیکھو میں نے دوسرے کو بھی کام دیا یے۔ کبھی ہم بطور والدین زیادتی کر بھی رہے ہوتے ہیں کیونکہ جو خاموشی سے کام کر دیتا ہے اس کو ہم زیادہ کام دینے لگ جاتے ہیں اور وہ پھر تنگ پڑنے لگ جاتا ہے۔

دو بہن بھائی اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ میری چیز اس نے خراب کر دی

آپ کا کام ہے کہ آپ پہلے بچے کی چیز خراب ہونے کے دکھ میں اس کا ساتھ دیں کہ ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہو اس نے آپ کی بہت اہم چیز خراب کر دی ۔آؤ بھائی یا بہن کو الفاظ میں بتا کر آتے ہیں کہ یہ میرے لیے بہت اہم تھی جس کو تم نے خراب کیا آئندہ مت کرنا۔

عموما ہم والدین کا جملہ ہوتا ہے کہ کون سا قیامت آ گئی کوئی بات نہیں آئندہ نہیں کرے گا۔

نہیں بھئ وہ اس کے لیے بہت اہم تھی قیامت ہے اس کے لیے، اس لیے اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس کا ساتھ دیں ۔ دوسرے بچے کو الفاظ میں کہنا بھی سکھائیں اور خراب کرنے ولے کو احساس دلائیں کہ یہ بات اچھی نہیں تھی۔

Part 3

بچے کو جب لڑائی کے بدلے میں سزا ملتی ہے تو وہ اس سے آپس میں لڑائی کرنا کیوں نہیں چھوڑتے۔

کیونکہ؛

سزا کا ڈر پیدا ہوتا ہے ، یہ سبق نہیں کہ کسی دوسرے کو تکلیف نہیں دینی ہے۔ اور خوف کی وجہ سے دوسرے کی محبت دل میں کبھی نہیں آتی۔

وہ یہ سیکھتے ہیں کہ ہم بھی دوسروں کو سزا دیں۔

وہ اس سزا کے ملنے کی وجہ سے اپنے دل میں دوسرے کے لیے غصہ پال لیتے ہیں۔اور پھر اس غصے کو حل کرنے کے لیے والدین موجود نہیں ہوتے ہیں جس سے وہ اپنے نامکمل دماغ سے مزید غلطیاں کرتے ہیں۔

سزا کے بدلے کیا کیا جائے؟

بچے پیدائشی طور پر تعلق کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کی عزت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے تعلق بنائے رکھیں گے تو وہ آپ کی سب باتیں مان لیں گے۔

اپنے آپ کو لڑائی کے موقع پر پرسکون رکھنا شروع کریں وہ بھی آپس کی لڑائیوں میں پرسکون رہنے لگ جائیں گے۔ جانتی ہوں، جانتی ہوں بہت مشکل ہوتا ہے ایسے اودھم کے وقت میں کیسے سکون میں رہیں۔

پانی پی لیجئے، وہاں سے ہٹ جائیں، بچے چیختے ہوئے آئیں تو کہیں آرام سے بات سنی جائے گی، کبھی بھی کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہ سنا دیں۔

Part 4

بگڑے ہوئے بچے سے بات کیسے کی جائے؟

ایک بچہ اونچا چیخ رہا ہے اور دوسرا اس پر مزید چیخ رہا ہے۔مجھے معلوم ہے آپ کو اس کا چیخنا برا لگ رہا ہے ۔مجھے بھی برا لگ رہا ہے۔لیکن ہمارے اس کو چیخ کر ڈانٹنے سے وہ اور چیخے گا کوئی اور راستہ سوچتے ہیں۔

آپ کو اپنے بہن بھائی پر غصہ ہے ، لیکن آپ کے غصے کے باوجود میں آپ کو مارنے نہیں دے سکتی ہوں ۔اس کو الفاظ میں بتاؤ آپ کو اس کی کیا بات بری لگی ہے؟

مجھے پتہ ہے آپ میرے ساتھ مزید کھیلنا چاہتی ہو مگر اب باقی بھائی یا بہن کا بھی کام کرنا ہے۔آپ کو میرا جانا نہیں پسند لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ ہم کھیل لیں گے۔

آپ کے بہن یا بھائی کو آپ کا اس کے منہ کے پاس یہ چیز لانا اچھا نہیں لگ رہا ہے یا تو آپ اسے واپس رکھ دو یا اس سے دور ہو کر کھیلو۔

آپ دونوں اتنی دور کھڑے ہو کر لڑائی کرتے رہو گے وہاں میں نہیں آ سکتی ہوں گر لڑائی کا حل نکالنا چاہتے ہو تو میرے پاس آؤ یا میں آتی ہوں ۔

چھوٹا بہن بھائی سو رہا ہے اتنا اونچا شور کرو گے تو وہ اٹھ جائے گا اور پھر میں اور آپ مزید نہیں کھیل سکیں گے۔

Part 5

کچھ چیزیں ایسی ہیں جو گھر کے ماحول میں ہمیں تبدیل کرنی پڑتی ہیں جس سے بچوں کا غم و غصہ ہلکا ہو سکے اور وہ آپس میں سکون سے رہنا پسند کریں۔

ایک روٹین قائم کی جائے۔ سونے جاگنے کھانے پینے کھیلنے کودنے کی ۔ روٹین میں پلنے والے بچوں کا دماغ نسبتا پرسکون ہوتا یے ان بچوں کے جن کی کوئی روٹین نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کا ذہن ایک الجھن میں رہتا ہے کہ اب نجانے کیا کرنا ہے؟

کچھ ہنسی مزاق، گدگدی، اچھل کود ، لطیفے۔ ایسا وقت روز کا معمول ہو۔

ہر بچے کے ساتھ 5 منٹ خاص ۔ اس سے آپ بچے کی ذہنی حالت کو سمجھ سکیں گے کہ آج اس کا موڈ کیسا جا رہا ہے اور اس لحاظ سے میں نے اس کو کیا کچھ کہنا یا سکھانا ہے۔

جب بچے کسی بات کی بدتعریفی کریں ، خاص کر کھانے کی جو کہ اکثر روز کا معمول ہوتا ہے تو بجائے چیخنے کے یا ان کو احساس دلانے کے کہ اچھا کھانا صحت کے لیے کتنا ضروری یے اس وقت صرف ان کو سمجھیں۔ مثلا ہاں مجھے پتہ یے آپ کو یہ سالن نہیں پسند ، بس اس کے آگے جملہ نہیں مکمل کرنا کہ بے شک نہیں پسند لیکن کھانا تو پڑے گا۔ وہ بچے کو ویسے ہی پتا ہو گا کہ آپ نے کچھ اور دینا تو ہے نہیں بس اس کے جذبات کو سمجھنا ہے۔

آپ کے پیار سے بات کرنے پر بچہ زیادہ رو رہا ہے اور لاڈ اٹھوا رہا ہے تو پریشان نہیں ہونا ہے۔ سمجھ جائیں کہ اصل میں آپ کا پیار اور رحم سے بات کرنا کام آ رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم سے کوئی پیار سے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا تو ہم اور زیادہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جاتے ہیں۔

Part 6

کیا کریں بچے رونا شروع کرتے ہیں تو چپ ہی نہیں ہوتے ہیں ۔ ہمارا دماغ گھومنے لگ جاتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر دوسری ماں کا ہے۔

یاد رکھیں کہ آپ کے بچے کے دکھ کا مداوا صرف ایک چیز میں ہے کہ آپ اس کے اس رونے دھونے کے موقعے پر کتنا پرسکون رہتے ہیں ؟

یاد رکھیں اس کو اس وقت نا ہی آپ کے لیکچر کی ضرورت ہے اور نہ ہی کبھی تسلی والے الفاظ کی۔ صرف پرسکون رہیں اور ان کے ساتھ رہیں۔ وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں تو کریں ورنہ خاموشی سے ان کو سہلائیں۔

اگلا سوال ہوتا ہے اس سے تو ان کو رونے کی عادت پڑ جائے گی۔

نہیں بالکل نہیں بلکہ ان کو سمجھ آ جائے گا کہ اپنے بڑے جذبات کو جن کو وہ خود سے نہیں سنبھال سکتے ہیں وہ آپ سے کہہ کر ہلکے ہو سکتے ہیں ۔

بڑے جذبات سے مراد وہ آپ کو الفاظ میں یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ آج سکول میں ان کو ڈانٹ پڑی تو کیسا لگا؟

ان کے دوست نے انہیں برا کہا تو کیا ہوا؟

ان کا لنچ کسی نے چھین لیا تو کیا ہوا؟

جب کسی نے ان پر چیخا تو وہ ڈر گئے، ان کا کام غلط ہوا تو انہیں شرمندگی ہوئی۔

ان کو کسی نے دھکا دیا تو ان کا کیا دل کیا؟

انہیں کسی ایک بچے سے بات کرنا پسند ہے جب اس نے اگنور کیا تو کیا ہوا؟

وہ یہ سب لے کر بھرے دل کے ساتھ آپ کے پاس آتے ہیں اور پھر آپ کچھ بھی نہیں کرتے یا بہن بھائی سے ہلکی سی لڑائی بھی بس ان کو رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

کچھ بچے روز اور کچھ بچے ہفتہ وار روتے ہیں۔ کچھ بہت چھوٹے بچے دن میں دو تین دفعہ بھی روتے ہیں بس ان کو ایسا لگتا ہے کہ ان کو سمجھا نہیں جا رہا ہے لیکن اگر آپ یہ کام کر دیں ان کو سمجھنے کا تو وہ اپنے بہن بھائی کو بھی سمجھنے لگ جائیں گے۔

Part 7

بچوں کو کچھ بنیادی اصول سکھانے چاہییں جس سے آپس میں بات کرنا اور سمجھنا آسان ہو جائے۔

لیکن اس سے پہلے کہ بچوں کو بتایا جائے دیکھیں کیا خود ہم ان پر عمل کرتے ہیں؟

اپنی بات کو صاف الفاظ میں کہنا۔ 1

کوئی ایک بچہ دوسرے کو مار رہا ہے تو اس کو سکھائیں کہ آپ کہو مجھے آپ کا مارنا اچھا نہیں لگ رہا ہے ۔اس لیے مجھے مت مارو۔

ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے حدود قائم کرنا ۔ 2

اگر ایک بچے سے دوسرے بچے کی کوئی چیز ٹوٹ جائے تو وہ اس کو آرام سے بتائیں کہ آپ کی وجہ سے مجھے مسئلہ ہوا ہے۔ دوسرا بچہ اس سے معذرت کرے یا اس کی چیز کو واپس ٹھیک کرنے میں اس کی مدد کرے۔

لڑائی کے دوران ایک دوسرے کی بات کو آرام سے سننا۔ 3

بچوں کو آرام سے بتایا جائے کہ چیخنا کسی بھی لڑائی کا حل نہیں ہوتا اس لیے دوسرے کی بات کو سنا جائے اگر ایک بچہ بات نہیں سننا چاہ رہا تو بطور والدین آپ دوسرے بچے کو بتائیں، اسے روکیں اور اس کو کہیں کہ اپنے بھائی کی طرف دیکھو اسے تمہاری یہ بات اچھی نہیں لگ رہی ہے۔

لڑائی کے دوران مسئلے کو سلجھانے کی طرف آنا۔4

جب دو بچوں کی لڑائی کسی ایک مسئلے پر ہو تو سب سے پہلے والدین پرسکون نظر آئیں پھر اس کے بعد بچوں کو بتایا جائے کہ ایک مسئلہ ہے اس کو حل کرنا ہے۔اگر کسی ایک چیز پر مسئلہ ہو تو دونوں بچوں کو اہمیت دی جائے یہ نہ ہو کہ کوئی ایک سمجھے کہ اس کے لیے یہ چیز اہم نہیں ہے۔پھر دونوں بچوں سے اس کا حل پوچھا جائے۔ایک سے زیادہ حل بھی ہوں تو ان سب کو ایک جگہ رکھ کر یا لکھ کر دیکھا جائے۔اور دونوں کو اس بات پر لے کر آیا جائے کہ دونوں مطمئن اور خوش ہوں۔

Part 8

بچوں کو آپس میں مذاکرات کرنا سکھائیں۔

مذاکرات میں سب سے پہلے؛

ایک دوسرے سے چیز لینا اور دینا کہ تم مجھے یہ دے دو میں یہ دے دوں گا۔

اگر دوسرے کی کوئی چیز بہت پسند ہو تو اپنی پسندیدہ چیز اسے دے دی جائے ۔

آپس میں باریاں لگا لینا۔

ٹیم ورک سکھایا جائے ایک بچہ ایک کام کر لے، دوسرے کو دوسرا دے دیا جائے تاکہ کام جلدی ختم ہو جائے۔

شدید لڑائی کے دوران کوئی سا ایسا لفظ جس سے لڑائی ایک دم ختم ہو جائے مثلا فریز ۔اور یہ لفظ بچے آپس میں خود طے کریں۔

کسی ایک چیز پر اگر ایگریمنٹ کرنا ہو تو اس کو لکھ کر کمرے میں بچے لگا لیں مثلا آج میں پہلے نہاؤں گا کل تم پہلے نہانا ۔

یہ مذاکرات صرف بچپن تک نہیں ہوتے ہیں بلکہ بڑے ہو کر بھی آپس میں دوست اور ہمسائے وغیرہ سے بھی معاملات سلجھانے میں مددگار ہوتے ہیں۔

Part 9

لڑائیاں بچوں میں کیوں ضروری ہیں؟

لڑائی کا دوسرا نام اپنی بات کو اچھے طریقے سے دوسرے تک پہنچانا ہے ۔اگر ہم بات ہی نہیں کریں گے تو اپنی بات دوسرے کو کیسے پہنچائیں گے؟ تو مقصد لڑائیاں ختم کرنا نہیں بلکہ اپنی بات کو اچھے طریقے سے کہنا سکھانا ہے۔لڑائیوں کے دوران والدین اپنا کردار ایک کاونسلر یا کوچ والا رکھیں۔ان کا کام یہ ہونا چاہیے کہ دیکھیں بچے کے اندر بات پہنچانے کی کتنی کمی اور کتنی بہتری ہے۔ اور جس بچے کے اندر جو کمی نظر آئے اس پر کام کیا جائے۔

لڑائی کے درمیان میں کبھی بھی والدین کسی ایک کی سائیڈ نہ لیں بلکہ پہلے ان کو خود سے معاملہ سلجھانے دیں۔ دیکھیں کہ وہ لڑائی کے اندر سے خود کو کیسے باہر نکالتے ہیں۔ دب جانے والے بچے کو بعد میں علیحدہ سے دبنے سے بچنے کے طریقے سکھائیں۔ اور دوسرے پر حاوی ہو جانے والے بچے کو بعد میں علیحدہ سے دوسرے کے ساتھ رحمدلی کرنا سکھائیں۔

کبھی کبھار بچے لڑ نہیں رہے ہوتے لیکن میں بطور والدین ایسا لگتا ہے کہ وہ لڑ رہے ہیں اس لیے جب تک بچے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی حد تک بات نہ کر دیں یا پھر شکایت لے کر آپ کے پاس نہ آئیں آپ ان کے درمیان نہ بولیں۔

Part 10

وہ دس وجوہات جن کی بنا پر بچے آپس میں نوک جھونک کرتے ہیں۔

1۔ہر دفعہ کی نوک جھونک میں وجہ مختلف ہو سکتی ہے اس لیے ہر دفعہ کی وجہ کو سمجھتے ہوئے بچوں سے بات کیا کریں۔

۔کچھ وقتی لڑائی ہوتی ہے اور پھر سلجھ جاتی ہے۔2

کسی لڑائی میں پہلے کا غصہ بھی شامل ہوتا ہے۔-3

ایک دوسرے کے برداشت کرنے کے انداز کی وجہ سے آواز اونچی نیچی ہو سکتی ہے۔-4

۔ایک بچہ دوسرے سے ماں باپ کے رویے کی وجہ سے جیلس ہو سکتا ہے۔5

وہ بور ہو رہے ہوتے ہیں اور اس بوریت کو ختم کرنے کے لیے لڑائی کرتے ہیں۔-6

-وہ آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ 7

۔وہ دوسرے بہن بھائی سے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں۔8

۔وہ باہر کسی سے لڑ کر ائے ہیں اور اس کا غصہ گھر میں اتار رہے ہیں۔9

۔کوئی ایک بچہ والدین سے زیادہ تعلق چاہتا ہے۔10

جب ہر دفعہ وجہ مختلف ہو تو بچے سے مختلف طریقے سے بات کی جائے اس کے مسئلے کو جان کر وہ حل پیش کیا جائے صرف یہ ایک جملہ کہہ دینا کہ؛

” تم لوگ تو ہر وقت لڑتے رہتے ہو”

ان کو کبھی بھی لڑائیاں ختم کرنے پر مجبور نہیں کرے گا بلکہ وہ اپ کے اس ایک جملے سے یہ سمجھیں گے کہ والدین ہماری بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے یا ان کے پاس ہمیں سمجھنے کو وقت ہی نہیں ہے یا وہ بس ہم پر لیبل لگا کے اپنی جان چھڑوا لیتے ہیں۔

Part 11

میرا بچہ غصے میں اپنے بہن یا بھائی کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے یہ بالکل بھی نہیں پسند یا مجھے اس سے نفرت ہے اور ہم یہ بات سنتے ہی ایک دم سے یا تو بالکل سخت ٹون میں آ جاتے ہیں کہ یہ کیسی بات کر دی یا پھر ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔

نفرت جذبہ نہیں بلکہ ایک موقف ہوتا ہے نفرت کے پیچھے کے جذبات کچھ ہوتے ہیں ان کو کھولنا یا ان کو سمجھنا یا ان کو اپنے بچے کو سمجھانا کسی بھی نفرت کو کم کر کے محبت، خیال ،ہمدردی یا خلوص کسی میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔

اب آتے ہیں کہ نفرت کے پیچھے کے جذبات کیا کیا ہو سکتے ہیں

خوف

تکلیف

دکھ

تنگ ہونا

اکیلا پن

دشمنی

جب بچہ ان الفاظ کا اظہار کرے کہ مجھے اس سے نفرت ہے تو اس سے بات کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہمیں رحم اس پر بھی دکھانا ہے اور اس کو بھی رحم سے سکھانا ہے۔

ہم اسے کہہ سکتے ہیں کہ میں آپ کے غصے کو دیکھ رہی ہوں لیکن اپنے غصے میں اتنے سخت الفاظ ہمیں نہیں بولنے چاہییں آپ یہ دیکھو کہ آپ کو اپنے بہن یا بھائی کی کس بات پر الجھن محسوس ہو رہی ہے تاکہ ہم اس کو سلجھا سکیں۔

Part 12

گھر کے اندر ایک بنیادی اصول بنانا ہےکہ لڑائی ہو یا ہاتھا پائی ہو ہم کسی کے لیے برے الفاظ استعمال نہیں کریں گے۔

کیونکہ اکثر لڑائیاں بہن بھائی ایک دوسرے کو الٹے سیدھے الفاظ بول کر شروع کرتے ہیں جس سے اکثر دب جانے والے بہن بھائی زچ ہو کر آگے سے چیختے چلاتے ہیں۔

بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کی وہ کمزوریاں پتہ ہوتی ہیں کہ جس پر وہ وار کر کے دوسرے کو چڑا سکیں۔

کسی بچے میں خاص یہ بات موجود ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کو چڑا کر اپنے جذبات کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

ایسے خاص بچوں کو اکیلے میں یہ بات سمجھائیں کہ اس جذبے کی تسکین کے پیچھے کچھ وجوہات ہیں۔کبھی بوریت، کبھی کسی دوسرے کا غصہ، کبھی طاقت حاصل کرنے کا جنون۔ اور ان کو یہ سمجھائیں کہ ان کی اصل طاقت اس میں ہے کہ وہ اپنے جذبات کو سمجھیں۔

ایسا مذاق جو دوسرے کو تکلیف دے وہ مذاق نہیں ہے۔

یہ بات بھی بچوں کو گھر میں ہی سکھانی پڑتی ہے۔ورنہ اپ دیکھتے ہیں کہ اس معاشرے میں اتنے بڑے بڑے افراد بھی یہ بات نہیں سیکھ پاتے کیونکہ ان کو عادت ہو گئی ہوتی ہے اور کوئی ان کو روکنے والا بھی نہیں ہوتا۔ تو جب بھی آپ کا بچہ کسی کا مذاق اڑانا شروع ہو تو اس کو پیار سے کہتے ہیں کہ بیٹا دوسرے کی شکل دیکھو وہ تکلیف میں ہے تو یہ مذاق قابل قبول نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *