رحمہ طارق آج کل کے سکول سسٹم سے اختلاف ہمیشہ سے رہا۔رٹہ سسٹم کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اسی لیے بچوں کو چھوٹی عمر میں سکول نہ بھیجنے کا ارادہ رہا۔مگر قطر شفٹ ہونے کے بعد بڑے بیٹے کو سکول داخل کروانا پڑا۔مگر ایک الجھن رہی۔ اسی جستجو میں رہی کے کس طرح شروع کروں۔ ہوم سکولنگ کا سرا نہی مل پا رہا ۔ دعائے استخارہ پڑھتی رہی اللہ راستے کھولتا گیا ان لوگوں سے رابطے ہوتے رہے جو اس چیز سے منسلک تھے۔الحمدللہ پھر بیٹے کو سکول سے اٹھانے کا فیصلہ بھی کر لیا۔چھوٹا بیٹا 4 سال کا تھا اس کو داخل نہیں کروایا تھا ابھی۔ یوں جنوری 2020 میں اس سفر کا با قائدہ آغاز کیا۔ مارچ 2020 میں کرونا کی وجہ سے سکول ویسے ہی بند ہو گئے آن لائن کلاسز کے بارے میں والدین کی پریشانی اپنی جگہ دیکھی۔ اب بہت سے والدین خصوصا پاکستان کے مزید ایک سال تک شش وپنج کا شکار نظر آ رہے ہیں سمجھ نہیں آ رہا کہاں سے شروع کیا جائے۔ ان کے لیے مختلف مراحل میں لکھوں گی۔ ہوم سکولنگ کہاں سے شروع کی جائے؟ کون سا سلیبس ہو؟ کون سا طریقہ ہو؟؟ ہوم سکولنگ بچے کو سمجھنے سے شروع کی جائے بچے کی نفسیات سے آگاہ ہو جائیں بس! ہوم سکولنگ کیسے شروع کی جائے؟ ایک بورڈ بنائیں جس میں روز آنے والے سوالوں کو آپ کہیں لکھ لیں۔ تاکہ آپ کا وقت ان سوالوں کو یاد کرنے میں ضائع نہ ہو۔ سوال سامنے ہوں گے تو اگلا قدم ، ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی طرف خود ہی اٹھنے لگے گا۔ Step1 ہوم سکولنگ کیسے شروع کی جائے؟ 1۔ایک بورڈ بنائیں جس میں روز آنے والے سوالوں کو آپ کہیں لکھ لیں۔ تاکہ آپ کا وقت ان سوالوں کو یاد کرنے میں ضائع نہ ہو۔ سوال سامنے ہوں گے تو اگلا قدم، ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی طرف خود ہی اٹھنے لگے گا۔ Step 2 اپنی صبح کی روٹین سیٹ کریں۔ ۔1 2۔بچوں کے ساتھ کوئی بھی ایک صبح کی عادت ڈالیں چاہے وہ ورزش ہو یا اکٹھے کچھ پڑھنا۔ 3۔برین سٹارمنگ کریں اس ٹاپک پر جو آپ آج بچے کو پڑھانا چاہتے ہیں۔اس کے مختلف طریقے گھر کی چیزوں میں سے بھی جو آپ کو نظر آئے وہ لکھ لیں۔ ۔روز کے کوئی احداف متعین کریں جو آپ بچے کے ساتھ کرنا چاہیں۔4 Step 3 ایک لسٹ بنا لیں جس میں آپ لکھ لیں کے ہوم سکولنگ کا فیصلہ آپ کر چکے ہیں تو اس میں وہ کون سے اہم نکات ہیں جو آپ کو بہت fantacise یا excite کرتے ہیں۔ یہ نکات آپ کی نظر کے سامنے رہیں گے تو دو فائدے ہوں گے۔ آپ ہوم سکولنگ کرتے ہوئے ان باتوں کے مطابق بچوں کو پڑھائیں گے۔ ۔1 2 ۔ تھوڑے عرصے بعد جب آپ تھکنے لگیں گے تو آپ کے اندر دوبارہ ہمت پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ان شاء اللہ Step 4 اپنے خدشات کو ایک بورڈ پرلکھ لیں۔ اس سے مندرجہ ذیل فائدے ہوں گے۔ ۔آپ ان خدشات کے جواب تلاش کر لیں گے۔1 ۔ آپ فوکسڈ رہیں گے۔2 ۔ آپ ان خدشات کو آہستہ آہستہ ختم کر لیں گے۔3 جب بھی آپ کا ۔4 گھنٹی بجائے گا تو آپ فورا سے اس کو مطمئن کر دیں گے۔ subconscious کیونکہ جن خدشات کو زندگی میں حل نہیں کیا جاتا وہ آپ کو بار بار آ کر پریشان کرتے ہیں آپکو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ Unknown fear Step 5 کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اگر یہ دیکھ لیا جائے کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے یا کس وجہ سے میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں تو کام کو کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جس چیز سے ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑنے لگا اسے کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ تو اگلے مرحلے میں لکھنے کا کام یہ ہے کہ ہوم سکولنگ کے فائدے میرے گھر کو کیا ہو سکتے ہیں؟ Step 6 Very important part of doing homeschooling is DESCHOOL YOURSELF. Dump every thought or process which you have adopted during your school time. کچھ بھی نیا کرنے کے لیے پچھلے انداز کو بھلا کر اپنا نیا راستہ تلاش کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس کے لیے اپنے ان تمام خیالات کو جو سکول کے زمانے میں تھے ان کو ختم کریں ورنہ آپ بچے کے مطابق اس کو کبھی بھی نہیں پڑھا سکیں گے۔ Step 7 بچوں کو پڑھائی کے لیے کیسے بٹھائیں؟ سب سے پہلے تو ہم دیکھیں ہمارے پڑھانے کے مقاصد کی ہیں۔ ۔ سکول میں نمبر لینا؟1 ۔ باقی بچوں سے بہتر نمبر لینا؟2 ۔ دنیاوی کامیابی؟3 ۔ پڑھو گے نہیں تو نوکری نہیں ملے گی؟4 ہمارے ہاں تعلیم سے محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔علم کو سیکھ کر اپنی زندگیوں میں ڈھالنے کا مقصد تو شاید بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس لیے بچے کے اندر کچھ شبہات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب جب ان کو نہیں ملتا ہے وہ تعلیم کو دنیا کی سب سے بے کار چیز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسی تعلیم جس میں نہ دل لگتا ہے نا ہی ہم والدین کو آج تک سمجھ آیا ہے کہ میتھ میں تھیورم کیوں ہوتے تھے اور انگریزی میں acrostic poem کا مقصد کیا ہوتا تھا؟ اس تعلیم کے لیے سیدھاسیدھا ہم نے اپنی زندگی کے 25 سال صرف کر دیے۔ایورج آدھی زندگی۔ مجھے معلوم ہے کہ پڑھائی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اس سے انسان کا ویژن بنتا ہے ۔ انسان کو دنیا میں چلنا پھرنا آتا ہے ۔ انگریزی کے جملے بولنے آ جاتے ہیں ۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں محبت کیوں نہیں ہو پاتی؟ مجھے پچھلے کچھ سالوں میں جتنی محبت کتابوں سے (با مقصد کتابوں ) سے ہوئی ہے اتنی شاید زندگی کے ابتدائی سالوں نہیں ہوئی ہو گی۔ کیونکہ ہمیشہ کورس کی کتابوں کا ایک ڈر تھا۔ پرچہ دینا اور نمبر لینا سے آگے کبھی کسی نے سمجھایا ہی نہیں کہ علم بھی کوئی چیز ہو سکتی ہے۔ بچوں کے اندر پیدا ہونے والی کنفیوژن اگر تعلیم اتنی ہی اہم ہے تو اماں ابا کیوں نہیں پڑھتے ہیں؟ ● یہ تو سارا دن گھر میں لگے رہتے ہیں کبھی کوئی پروڈکٹیو کام نہیں کیا ہے۔● ایک بات یاد رہے بچے کا دماغ 12 سال سے پہلے یہ سمجھنے کے قابل نہیں ہے کہ ہم نے اپنے وقتوں میں پڑھ لیا تھا اب ہمیں نہیں پڑھنا ہے۔ویسے اب پڑھنے سیکھنے میں کوئی برائی بھی نہیں ہے ان کے حل: ۔ گھر میں علم دوستی کا ماحول پیدا کریں۔1 ۔ لالچ دے کر پڑھانے سے بچوں کے اندر ذمہ داری نہیں پیدا ہو سکتی ہے۔2 ۔ وقتی نمبر لانے سے زیادہ بچوں کو زندگی میں بہتری لانے والے علم کی طرف توجہ دلائیں۔3 ۔ بچوں سے پوچھیں ان کو کیوں نہیں پڑھنا ہے؟4 5۔چھوٹے بچوں کو ساتھ تھوڑا تھوڑا اپنی کاپی میں بھی لکھیں جس سے ان کو لگے والدین بھی کچھ لکھ سکتے ہیں۔ ۔ خود جو پڑھ رہے ہیں کسی کتاب میں سے وہ بچوں کے ساتھ ڈسکس کریں۔6 7۔ کچھ سیکھ کر جب عمل میں لائیں تو بچوں کو اس سے حاصل ہونے والے فائدے سے آگاہ کریں۔اور اس کے لیے بچے کا 18 سال کا ہونا لازمی نہیں 7 سال کے بچے سے آپ کسی بھی کتاب پر اس کی زبان کالیول استعمال کرتے ہوئے بات کر سکتے ہیں۔ ۔ بچوں کے ساتھ کتابیں خریدنے کا رجحان پیدا کریں۔8 9۔ جس چیز کا جواب آپ کو نہیں معلوم بچے کے ساتھ مل کر اس پر ریسرچ کریں۔ اس سے بچے کو یہ سمجھ آئے گا کہ بڑوں کو سب کچھ معلوم نہیں بھی ہو سکتا ہے ۔ اور وہ بڑے ہو کر اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنائیں گے۔چھوٹوں سے بھی سیکھ لیں گے۔ ۔ بچوں کو پڑھائی کے دوران بریک ضرور دیں۔10 11۔ جب یہ لگے کہ وہ کہیں اٹک گئے ہیں تو ان کو مزید جھاڑنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ۔ ان کے پوچھیں وہ سب سے پہلے کون سا سبجیکٹ پڑھنا شروع کریں گے؟12 7 سال تک بچے کو ایسا لگتا ہے کہ پڑھائی سے اس کے کھیلنے کا وقت ضائع ہو رہا ہے اور حقیقت میں ہو بھی رہا ہوتا ہے کیونکہ باقاعدہ کتابوں کے اندر لکھ کر پرچہ دینا اس عمر میں اتنا فائدہ مند نہیں جتنا ان کا کھیل لینا۔ اب بس روزانہ بٹھانے کے لیے آپ کو محنت تو کرنی پڑے گی کیونکہ سکول کی پڑھائی کے لیے بچے بہت کم ہی شوق سے بیٹھتے ہیں ۔جس دن میں نے گھر میں اعلان کیا تھا کہ ہم سکول کی پڑھائی نہیں کریں گے اس دن سے میرے بچے خود ہی کتابیں لے کر بیٹھ کر پڑھ بھی رہے ہوتے ہیں اور لکھ بھی لیتے ہیں ۔ بارہ سال کی عمر تک برداشت کریں ورنہ روزانہ ڈانٹ چیخ لڑائی جھگڑا سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔یا تو بچہ آپ سے ڈر جائے گا۔ یا ڈھیٹ ہو جائے گا۔ کیونکہ ہمارا تعلیم کا مقصد ہمیں واضح نہیں ہے۔ !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *